تحریر:محمد شعیب عادل
سوشل میڈیا پر کسی نے خوب کہا ہے کہ کوئی سال پہلے سویلین حکومت ایک فوجی کو سزا دینے چلی تھی مگر سال بعد فوجی اپنی عدالتیں بنا کر سویلین کو لٹکانے چلے ہیں۔۔۔ ملٹری کورٹس کی نوبت کیوں آئی ؟اس میں نواز حکومت کی نااہلی کا بھی عمل دخل ہے جو دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی کرنے کی بجائے ذاتی رنجشوں پر آگئی اور ایک میڈیا گروپ کے ساتھ مل کر جنرل مشرف کا عدالتی اور میڈیا ٹرائل شروع کر دیا۔جس پر انہیں منہ کی کھانی پڑی۔
نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف ٹھوس پالیسی بنانے کے لیے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، کئی اجلاس کیے، کئی کمیٹیاں بنیں ، سیاستدانوں سے مشورے کیے ، حسب روایت سینئر صحافیوں سے بھی رائے لی، پالیسی بھی بنائی مگر دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔حکومتی رویہ معذرت خوانہ رہا جبکہ دوسری طرف طالبان مسلسل دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف رہے۔
مزید دیکھئے: فوجی عدالتوں کا قیام، ضرورت اور اہمیت
اس صورتحال سے اکتا کرنئے آرمی چیف نے طالبان کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا اور نواز شریف کو بحالت مجبوری اس کی تائید کرنی پڑی۔ آپریشن ضربِ عضب جون کے آخری ہفتے میں شروع ہوا۔پاک فوج نے دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد کے خاتمے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں سے بڑی حد تک طالبان کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔
یاد رہے کہ کوئی چھ سال پہلے بھی سوات میں پاک فوج نے کامیاب آپریشن کیا تھا اور کہا گیا تھاکہ طالبان کا خاتمہ کر دیا گیا ہے جبکہ اس کامیاب آپریشن کے نتیجے میں مُلا فضل اللہ افغانستان بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور ابھی تک پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔
بین الاقوامی میڈیا نے پچھلے آپریشنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن ضربِ عضب پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے ۔ یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ آپریشن ضربِ عضب سے قبل قبائلی علاقوں میں طالبان کی نئی صف بندی بھی ہوتی نظر آئی۔ کئی گروپ ٹوٹے اور کئی وجود میں آئے۔ کچھ نے پاکستان کے خلاف کاروائیاں نہ کرنے کا اعلان کیا اور کچھ کے متعلق کہا گیا کہ وہ کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب کے ساتھ ہی طالبان کے ردعمل سے نبٹنے کے لیے پورے ملک میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی۔اہم مقامات پر فوجی دستوں کا گشت بھی شروع ہو گیا۔ فوری طور پردہشت گردی کی کوئی بڑی کاروائی نہ ہوئی۔ ہمارے ہاں بڑی کاروائی اسے کہا جاتا ہے جس میں کم ازکم پچاس ساٹھ افراد ہلاک ہوں۔ پانچ چھ افراد کا قتل معمولی کاروائی کے زمرے میں آتا ہے۔
ابھی ر۱وی چین لکھ ہی رہا تھا کہ اچانک لاہور میں واہگہ بارڈر کے مقام پردہشت گردی کی ایک بڑی کاروائی ہو گئی جس میں ستر کے قریب افراد لقمہ اجل بنے۔ تحریک طالبان نے اس کاروائی کو آپریشن ضربِ عضب کا ردعمل قرار دیا۔ حسب معمول دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے کئی اجلاس کیے اور پلان بنائے اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کا اعادہ کیا گیا۔
مزید دیکھیے: دہشت گردکامیاب ہورہے ہیں، دس کھلی کھلی نشانیاں
پاکستانی عوام کا حافظہ بھی چند دن کا ہوتا ہے ، جلد ہی یہ واقعہ ذہنوں سے اتر گیا۔ حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے کہ اچانک پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہو گیاجس میں 132 بچوں سمیت 142 افراد ہلا ک ہوگئے۔ آپریشن کے پیش نظر پشاورمیں سیکیورٹی ہائی الرٹ رہتی ہے ۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں اور ناکے لگے ہوئے ہیں اور آرمی پبلک سکول کی سیکیورٹی ویسے بھی پاک فوج نے سنبھال رکھی تھی لیکن پھر بھی دہشت گرد اپنی ’’ بزدلانہ‘‘ کاروائی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی جبکہ ہمارے مذہبی و سیاسی دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے اسے بھارت کی کاروائی قراردیا۔
کوئی سال پہلے سویلین حکومت ایک فوجی کو سزا دینے چلی تھی مگر سال بعد فوجی اپنی عدالتیں بنا کر سویلین کو لٹکانے چلے ہیں