تحریر: طاہر احمد بھٹی۔فرینکفرٹ۔جرمنی
ایک چھوٹے زمیندار کا پانچ ایکڑ کماد تھا جس میں سور گھس گئے۔ اس نے کوک فریاد کی تو بستی اور ارد گرد کے ڈیروں سے کوئی سو ڈیڑھ سو لٹھ بردار، آٹھ دس بندوقچی ، پچیس تیس کتے اور تماش بین لونڈوں لپاڑیوں کا ایک غول اکٹھا ہوا اور ایک ہڑبونگ مچا کر ایک طرف سے داخل ہوا اور سوروں کو مارنے کی کسی معقول حکمت عملی کے بغیر ان کو بھگانے لگا۔ سور آگے آگے اور بے حکمت ہجوم پیچھے پیچھے۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سارا کماد روند ڈالا گیا اور سور بھاگ کے ساتھ والے بیلے میں گھس گئے۔ کسان نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو سارا کماد لمبا لیٹا ہوا ہے یعنی پورا تباہ ہو گیا ہے۔ تاسف میں ڈوبا ہوا ایک جملہ اس کے منہ سے نکلا کہ” سوراں ولوں وی گئی تے ٹانڈے وی نہ بچے” مطلب یہ کہ سوروں سے بھی بگڑ گئی اور فصل بھی نہ بچ سکی!
ہمارے ملک میں بیانئے کی جو مٹی پلید ہو رہی ہے وہ اس کسان کے کماد سے کم نہیں۔ آپ کے دیکھتے دیکھتے بیڑے غرق ہو رہے ہیں اور ہر مصیبت کے بعد آپ کو ایک نئی اصطلاح چاہئے ہوتی ہے۔ باچا خان کی فلاسفی اور مودودی صاحب کا جہاد، جناح صاحب کی گیارہ ستمبر کی تقریر اور دولتانہ کا یو ٹرن، ایوب خاں کا ون یونٹ اور یحییٰ خاں کے قومی ترانے، بھٹو کی دوسری ترمیم اور ضیاء کا XXآرڈیننس۔ اسحق خاں کی وفا اور فاروق لغاری کی بے وفائی، مشرف کے آپریشن اور زرداری کی مفاہمت، مولوی عزیز کی کرنی اور چوہدری نثار کی بھرنی اور آخر پر وزیر اعظم صاحب کی معاملہ فہمی اور چیف صاحب کا استغناء۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہمارے کارناموں کی فہرست ہے اور اس میں سارے فلسفے اور حکمت عملیاں گوندھ کر جو بیانیہ ہمارے سر پہ چڑھ کر ناچ رہا ہے وہ یہ کہ
ہمارے پاس خارجہ پالیسی کوئی نہیں بلکہ ڈنگ ٹپاو انداز سے کام چلا رہے ہیں ۔
داخلی طور پر وہ تضاد کہ الامان۔۔۔
ٹیچروں کے ہاتھ میں بندوق دے کر فوج کو ذہن سازی اور بیانیہ جاری کرنے پہ لگایا ہوا ہے۔
میڈیا اپنے ملک کا چوتھا ستون بننے کی بجائے پانچواں کالم بننے کے چکروں میں ہے اور کالموں اور مکالموں پہ وہ وقت آ پڑا ہے کہ
فضائے شھر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر۔
نکل کے گھر سے اب اہل نظر نہ جائیں کہیں.
اچھے خاصے دبنگ بولنے اور لکھنے والے ہوتے ہیں اور فساد کی جڑھ اور ظلم کے گڑھ کا ذکر آتے ہی ہکلانے لگتے ہیں۔ بھائیو! اس سے پوچھو کی قرآن کریم نے تو حکم دیا ہے کہ واذا حکمتم بین الناس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آلاخر۔
کہ جب انسانوں پر حکومت کرو تو عدل سے کرو اور شریعت اپنے آپ پر نافذ کرو اور جتنی مرضی کرتے جاو لیکن دوسروں پر بالجبر اجازت نہیں۔
دوسرا یہ کہ ریاست طبقات اور گروہوں کے درمیان حکم ہے فریق نہیں اور عدلیہ فیصلے سنایا کرے محفوظ نہ کیا کرے۔ اس سے دھڑوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اپنے مریض کے مذہب کو دیکھ کر دوائی نہیں دیتا تو قانونی دادرسی بھی اسی پیشہ وارانہ دیانت سے کرنی ہو گی۔ اپنا تصور خدا و انبیاء پیش کرو سر آنکھوں پہ مگر مسلط نہ کرو۔ جب قرآن کا خدا فرما رہا ہے کہ میں نے عقائد و ایمان میں اپنی مشیت نافذ نہیں کی بلکہ انسانی ضمیر کو آزادانہ انتخاب کا اختیار دیا ہے تو پھر ہم مولوی کو اس کی مشیت نافذ کرنے کا حق کیسے دے سکتے ہیں۔ یہ باتیں کریں اور جمود توڑیں۔
پرویز ھود بھائی کی بات نہ مانیں مگر ان کے صاحب علم انسان ہونے کے شرف پر زبان درازی نہ کریں۔ جاوید غامدی تہذیب سے کہہ رہے ہوں تو مہذب رائے زنی کریں۔ ایران اور سعودیہ اپنا وسیع تر مفاد لڑائی میں ہی سمجھیں تو وقار کے ساتھ اپنے گھر بیٹھیں۔ اس ثالثی سے پہلے اپنے گھر میں تو امن اور صلح کی فضاء پیدا کر لیں۔ وزیر اعظم اگر “سرن” جیسے عظیم سائنسی ادارے میں ڈاکٹر عبدالسلام کو قابل فخر اثاثہ کہہ آئے ہیں تو لٹھ لے کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔
وہ جو روز آ کے ہمارے بچے مار جاتے ہیں ان امن کی فاختاوں کے انڈے پینے والے کووں اور منحوس گدھوں پر بصیرت سے بھر پور نگاہیں مرکوز کریں۔ اور قومی سطح پر عوامی بیانئے کی روائیت کو فروغ دیں۔ اوپر سے نافذ اور مسلط کئے گئے بیانئے کو رد کریں اور تب تک بولتے رہیں جب تک بیانئہ آپ کے مکالمے کی بازگشت نہ بن جائے۔
باچا خان بہت اچھے انسان تھے مگر ان کی بعض باتیں ہمارے آج پر معروضی طور پر اطلاق نہیں پاتیں۔
مودودی صاحب عالم تھے مگر ان کی نفسانیت نے اسلام کو بزور شمشیر نافذ کرنے کا داغ اسلام پر لگایا ہے اور ایسا طرز فکر یادگار چھوڑ گئے ہیں جو دلوں کے زنگ تلوار سے چھٹانے پر اعتقاد رکھتا ہے۔ اللہ ان کو معاف کرے۔
قائد اعظم محمد علی جناح داڑھی اور تسبیح کے بغیر ہی ریاست کی اور اس سے پہلے مسلم لیگ کہ سربراہی کرتے رہے لیکن ان کی اپنی پہلی کابینہ میں ایک مرکزی وزیر ہندو،ایک احمدی اور افواج کا سربراہ عیسائی مذہب سے تھا اور آپ خود سب کو کہہ کے فوت ہوئے ہیں کہ
” آپ آزاد ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے چرچ یا مسجد جانے کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔”
اب اگر عقائد پہ مارنا شروع کیا تو ایک بات بڑے غور سے سن لیں۔ پھر
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔ اور ایک بات اور۔ جن کو آپ ٹارگٹ کر کے مار رہے ہیں وہ نہیں مریں گے۔ وہ لکڑی صاحب بصیرت بڑھئی کے ہاتھوں طوفان سے بہت پہلے کشتی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اکثر سیلابوں میں آزمائی جا چکی ہے۔ 1953 والے سیلاب میں بھی اور 1973 والے اس سے بھی بڑے سیلاب میں، نہ صرف یہ کہ وہ کشتی سلامت ہے بلکہ ضرورت زمانہ کے ساتھ لگا بھی کھاتی ہے۔
سعئ لا حاصل چھوڑیں اور اپنے سکول، بچے، ادارے، ریاست، معیشت اور معاشرت بچائیں اور باہمی گفتگو اور مکالمے سے اپنا ذاتی بیانیہ تعمیر کریں۔
ورنہ سوروں سے تو بگڑ ہی گئی ہے، اب کماد بچا لیں۔