تحریر : عماد ظفر
Image may be NSFW.
Clik here to view.
بلوچستان کے باسیوں کی محرومیوں میں ایک بار پھر آضافہ ہو گیا ۔ خصوصی عدالت برائے انسداد دہشت گردی نے سابقہ آرمی چیف اور بد ترین آمر پرویز مشرف کو ساتھیوں سمیت اکبر بگٹی کے قتل سے بری کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرویز مشرف ایک بھی مرتبہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش نہیں ہوا چنانچہ اس امر سے یہ اندازہ لگانا ہرچند مشکل نہیں کہ مشرف کی بریت کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں اور کن خفیہ ہاتھوں نے اس کیس سے مشرف کی جان چھڑوانے میں مدد کی۔
یہ کوئی معمولی نوعیت کا مقدمہ نہیں تھا اکبر بگٹی بلوچستان کے بہت بڑے سیاسی رہنما تھے جن کے قتل کے بعد بلوچستان میں لگی آگ پر آج تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ اکبر بگٹی کے بارے میں ایک روایتی طریقے پراپیگینڈہ کر کے باقی صوبوں کے عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ایک ظالم سردار اور پاکستان دشمن تھے۔ جبکہ دراصل اکبر بگٹی نے قیام پاکستان کے وقت اگر جناح کا ساتھ دیتے ہوئے بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا ووٹ نہ دیا ہوتا تو آج شاید بلوچستان پاکستان کا حصہ نہ ہوتا۔ایسے آدمی کو ایک بزدل آمر مشرف کے کہنے پر غدار سمجھنا انتہائی احمقانہ سوچ ہی ہو سکتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھی شیخ نجیب کو غدار ٹھہراتے ٹھہراتے ہم نے اسے علیحدگی پسندی پر مجبور کر دیا تھا اور یہ بھی اس وقت کے آمروں کی مہربانی کا نتیجہ تھا۔
عماد ظفر کی دیگر تحریرات:ادبی و صحافتی چورن فروش
بچوں کی کم عمر میں شادی اور دین کے ٹھیکیدار
سعودیہ ایران کشیدگی ہمارا مسئلہ نہیں
مشرف اس معاملے میں کیسے بے قصور ثابت ہوا یقینا آئینی ماہرین اس پر آنے والے دنوں میں بحث کرتے نظر آئیں گے۔ فی الحال تو یہ عدالتی فیصلہ ملکی تاریخ کے ایک اور سیاہ ترین فیصلوں میں سے ایک دکھائی دیتا ہے۔ عدلیہ نے ملکی تاریخ میں ہمیشہ ہی سے اشرافیہ کا ساتھ دیتے ہوئے انصاف کے بنیادی تقاضوں سے منہ موڑتے ہوئے فیصلے دیے۔ قوی امید تھی کہ وکلا تحریک اور افتخار چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی کے بعد تمام عدالتیں ماضی کے برعکس کسی بھی قسم کے دباو کے بغیر فیصلے جاری کریں گی لیکن افسوس ایسا نہ ہوا اور اس فیصلے کے بعد اشرافیہ اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ مشرف جیسے بزدل انسان کو بریت ملنا بلوچستان کے رہنے والوں کے لیئے یقینا ایک تکلیف دہ امر ہے۔
مشرف کے دور عروج میں نواب اکبر بگٹی نے نہ صرف اسے کھلم کھلا للکارا تھا بلکہ اس کی کشتی میں پہلا سوراخ بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ہر فرد جانتا ہے کہ بگٹی کو مشرف کے کہنے پر قتل کیا گیا لیکن تعجب ہے عدالت عظمی پر جسے نہ تو مشرف کے وہ بیانات دکھائی دیئے جس میں وہ ریاستی طاقت کے بل بوطے پراکبر بگٹی کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور نہ ہی اس کے ٹی وی انٹرویو جن میں وہ کھلم کھلا اکبر بگٹی کو بم سے نشانہ بنانے کی بات کرتا تھا۔ قانون اور ریاست کی بالادستی کے نعرے لگاتے سیاستدان یقینا مشرف کو احتساب کے کٹہرے میں لانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ مشرف کی پشت پر موجود اس کے سابقہ ادارے کی خاموش حمایت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اور یہ درپردہ حمایت بلوچ عوام کو وفاق سے اور فوج سے مزید متنفر کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ہم نے اس ملک میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی لگتے دیکھا، ایک وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں پہنے اٹک کے قلعے میں پابند سلاسل دیکھا، نواب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کو ریاستی جبر کا شکار ہو کر ہلاک ہوتے دیکھا لیکن آمروں کو ہمیشہ محلات میں اور سرکاری اعزازات کے ساتھ رخصت ہوتے دیکھا۔ سقوط ڈھاکہ کے مجرم یحیٰ خان اور جنرل نیازی ہوں یا پرویز مشرف شاید قانون ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہی اپاہج ہو جاتا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے معاملات دراصل سویلین قیادت کے اختیار میں نہیں ہیں۔
آپ بلوچستان کے نوجوانوں سے کیسے پاکستان کے قانون و آئین کو ماننے اور اس پر پابند رہنے کا کہہ سکتے ہیں جب کہ خود مشرف جیسا بد ترین آمر اس کمزور قانون کی گرفت میں نہیں آتا اور جس نے ذاتی مفادات کے لیے بار بار اس ملک کے آئین کو پیروں تلے روند ڈالا۔
بندوق کے زور پر ہم نے مشرقی پاکستان کو ساتھ رکھنے کی کوشش کی تو نتیجا کیا ملا۔ بنگلہ دیش کی صورت میں ایک علیحدہ ملک۔ سقوط ڈھاکہ جیسا ایک بدنما زخم۔ ریاست کے باشندے جبر کی بنیاد پر کبھی بھی یکجا نہیں رہتے۔ یہ سبق ہم نے آج تک نہیں سیکھا۔ آپ اکبر بگٹی یا بالاچ مری کومار تو سکتے ہیں لیکن ان کے نظریات اور خیالات کو نہیں۔خیالات اور نظریات کبھی بھی بندوق کے زور پر کچلے یا ختم نہیں کیئے جا سکتے۔ ان کو تبدیل کرنے کے لیے اس احساس محرومی کو ختم کرنا پڑتا ہے جو ریاست کے باشندوں میں استحصال جبر اور ناانصافی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ احساس محرومی طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ حقوق کی فراہمی سے ختم ہوتی ہے۔
مشرف اگر قانون کی گرفت سے آزاد اپنے بنگلے میں مزے سے سگار پیتا زندگی کے شب و روز گزارے گا تو محض بلوچستان میں نہیں بلکہ ملک کے گوشے گوشے میں موجود افراد کے دلوں میں قانون کا احترام بھی ختم ہو گا اور قتل و غارت کے ملزموں کو پابند سلاسل کرنے کا اخلاقی جواز بھی۔ ویسے سمجھ سے بالاتر ہے کہ مشرف نے ملک و قوم کیلئے ایسی کیا گرانقدر خدمات انجام دیں ہیں جن کی بنا پر اس کو سلاخوں کے پیچھے ہونے کے بجائے بنگلوں میں ریاستی تحفظ کے ساتھ رکھا جا رہا ہے۔ خود اس کے سابقہ ادارے کے لوگ مشرف کے دور آمریت میں وردی پہن کر باہر نکلنے سے جھجکتے تھے۔ اپنے ادارے کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے بعد بھی اس کا اسی ادارے کی آنکھ کا تارا ہونا انتہائی ناقابل فہم اور حیران کن ہے۔ اگر مشرف کو قانون کی گرفت سے بچانے کا مقصد محض ایک ادارے کی بالادستی کے تصور کو قائم رکھنا ہے تو یہ ایک ناقص حکمت عملی ہے کیونکہ بالادستی محکوموں اور غلاموں پر قائم رکھی جا سکتی ہے آزاد معاشروں اور ذہنوں پر نہیں۔
بلوچستان کے معاملے کو تو میڈیا کے ذریعے دبا کر تاثر دیا جاتا ہے کہ وہاں سب ٹھیک ہے لیکن مشرف کے جرائم محض بلوچستان تک محدود نہیں ہیں۔ کارگل جیسی جنگی حماقت ـ منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹنے سے لیکر وکلا کو زندہ جلانا اور بینظیر بھٹو کے قتل میں بھی مشکوک ملزم ٹھہرایا جاناـ ایسے لاتعداد جرائم ہیں جو مشرف کے کھاتے میں ہیں۔ لاتعداد گم شدہ افراد کے ورثا آج بھی مشرف سے اپنے پیاروں کا حساب چاہتے ہیں۔بلوچستان کے نوجوان اکبر بگٹی اور بالاچ مری کو آج بھی اشرافیہ کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں گردانتے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی کو صوبائی خود مختاری اور صوبے کے وسائل پر رائیلٹی میں اضافہ اور فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر میں کمی جیسے جن مطالبات پر مارا گیا ان پر مذاکرات کی میز پر گفتگو ہو سکتی تھی لیکن مشرف نے طاقت کے خمار میں ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اکبر بگٹی کو بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا۔ گو اکبر بھٹی کے ہتھیار اٹھانے اور سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے اقدامات کو کسی بھی طریقے سے قبول نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کو مارنے کے بجائے عدالت میں یا کسی تحقیقاتی کمیشن میں ان الزامات کی تحقیقات ہو سکتیں تھیں۔مشرف نے محض اپنی ذاتی انا کی تسکین کیلئے اپنے ادارے کو استعمال کر کے بلوچستان کو ایسی آگ میں جھونکا جس کی شدت سے آج بھی یہ صوبہ جل رہا ہے۔ ایسے میں کم سے کم مشرف پر مقدمہ نا صرف انصاف کے تقاضوں کے مطابق چلنا چاہیئے تھا بلکہ اسے دیگر مجرموں کی طرح عدالتی پیشیوں پر پیش ہونے کا بھی حکم دیا جانا تھا۔
اگر ارباب اختیار بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں تو ریاست کو خود اکبر بگٹی کیس کو سپریم کورٹ کے کسی تحقیقاتی کمیشن کے سپرد کرنا چاہیے تا کہ اصل حقائق سے پردہ اٹھنے کے ساتھ ساتھ اکبر بگٹی کے قاتلوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔